تازہ ترین

امام حسن (ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے جہاد کا فلسفہ

امام حسن علیہ السلام کی صلح اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کے فلسفے کو بہت سے دوسرے مسائل کی طرح علم و تحقیق کے معتبر اور قابل اعتماد سرچشموں سے رجوع کرکے بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے ۔ ہم نے اس بحث کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اختصار کے ساتھ مکمل کیا ہے:

لیکن سب سے پہلے ایک ضروری بات کی طرف ہم اپنے قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں:

امام کے بارے میں ہم اہل تشیع کا عقیدہ و نظریہ بنیادی طور پر اہل سنت کے عقیدے اور نظریے سے مختلف ہے ۔

اہل سنت کہتے ہیں:

اس امر میں کوئی حرج نہیں لوگ ان کے امام اور پیشوا سے زیادہ دانش مند اور عقل مند ہوں ۔

شئیر
1271 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2819

 

اور وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ:

ان کا امام ممکن ہے گناہ کا مرتکب ہوجائے اور کسی اشتباہ سے دوچار ہوجائے ۔

اسی بنا پر اہل تسنن کی کتابوں میں ہم نے پڑھا ہے ۔ حضرت ابو بکر نے کہا:

” میں نے تمہاری حکومت کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں، حالانکہ میں تم میں سے بہترین ہوں ۔ اگر تم لوگ مجھے راہ حق پر چلتا ہوا دیکھو تو میری مدد کرو اگر میں نے راہ باطل پر قدم بڑھایا تو میری رہنمائی کرو ۔ ” 1

حضرت عمر کے بارے میں بھی یہ نقل کیا گیا ہے کہ عورتوں کے مہر کے بارے میں انھوں نے قرآن کے خلاف رائے دی ۔ ایک مسلمان خاتون نے انھیں ان کی غلطی پر آگاہ کیا اور حضرت عمر نے اعتراف کیا:

” تمام لوگ عمر سے زیادہ دانا اور فقیہ ہیں ۔ ” 2

لیکن اہل تشیع مسلمہ عقلی اور نقلی دلائل کی بنا پر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ:

امام، رسالت کے ہدف کو جاری رکھنے اور اس کی خاطر جدو جہد کرنے کے لئے خدا کی طرف سے اور پیغمبر ۖ کے وسیلے سے مقرر کیا گیا ہے ۔ اس لئے اسے ہر طرح کے گناہ، خطا اور غلطی سے پاک اور تمام انسانوں سے زیادہ عقلمند ہونا چاہیئے تا کہ وہ امت اسلامی کی حقیقی فلاح و سعادت کی جانب رہنمائی کرسکے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک سچے صحابی عمار یاسر سے فرمایا:

اگر تمام لوگ کوئی راہ اختیار کریں اور علی (ع) کسی دوسری راہ پر چلیں تو تم اس راہ پر چلو جس پر علی (ع) چل رہے ہوں اور دوسرے تمام لوگوں سے الگ ہوجاؤ ۔”

” اے عمار ! علی (ع) تمہیں ہرگز ہدایت کے راستے سے باہر نہیں لے جائے گا اور ضلالت و گمراہی کی راہ پر نہیں ڈالے گا ۔ “

” اے عمار ! علی (ع) کی اطاعت اور پیروی، میری اطاعت ہے اور میری اطاعت خدائے بزرگ و برتر کی اطاعت ہے ۔ ” 3

نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد دو قیمتی چیزوں (ثقل اکبر اور ثقل اصغر) کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کا حکم دیا اور وضاحت بھی فرمادی کہ ثقل اکبر سے مراد ” قرآن مجید ” اور ثقل اصغر سے مراد آپ کی ” عترت اور اہلبیت: ہیں اور فرمایا:

” ان سے آگے اور پیچھے مت ہونا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور انھیں کوئی چیز نہ سکھاؤ کہ وہ تم سے زیادہ دانا ہیں ۔ ” 4

اماموں کے بارے میں ہمارا عقیدہ اس طرح کا ہے کہ:

ان کا علم، علم الہی ہے نہ کہ بشری اور وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو اس صحیفے اور نوشتے میں دیکھتے ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبر کے وسیلے سے ان تک پہنچا ہے ۔ اس کی حرکت، ان کا سکون، ان کی لڑائی اور ان کا سکوت، سب خدا کے حکم کے تحت ہے اور وہ کوئی کام خدا کی مرضی اور پسند کے خلاف نہیں کرتے ۔ 5

جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کے بارے میں فرمایا:

” حسن (ع) اور حسین (ع) دونوں امام ہیں خواہ وہ قیام کریں یا بیٹھے رہیں ۔ ” 6

اس ارشاد میں امام حسن علیہ السلام کی صلح اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کی جانب اشارہ کیا گیا کہ دونوں ہی چیزیں اسلام اور مسلمان کے مفاد میں تھیں اور وہ دونوں محترم شخصیتیں اپنا حقیقی اور خدا کی طرف سے مقرر کردہ فریضہ انجام دیتی رہی تھیں اور کوئی شخص ان کی صلح اور ان کے قیام پر اعتراض نہیں کرسکتا ۔

اہل تشیع اس ثابت شدہ نظریے اور اس مستحکم عقیدے کی بنا پر اپنے اماموں کی بے چوں و چرا پیروی کرتے ہیں اور ان کی مطلق اطاعت کو واجب سمجھتے ہیں اور ان بزرگوں کے فرمان کو خواہ وہ قیام کے لئے ہو یا قعود کے لئے، خواہ وہ جہاد کے لئے ہو یا سکوت کے لئے ۔ اسے بجالانے کو اپنا فرض جانتے ہیں حسی کہ اگر وہ کسی ایسے کام کا حکم دیں جس کی مصلحت اور جس کا فائدہ ان پر واضح نہ ہو تب بھی اس حکم کے بجا لانے کو اپنا فریضہ سمجھ کر بجالاتے ہیں کیونکہ ائمہ (ع) معصوم ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں خدا کے فرمان کے مطابق اور اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کو پیش نظر رکھ کر کہتے ہیں ۔

اس واقعہ پر توجہ دیجیے:

سہل خراسانی نے امام صادق علیہ السلام کو خدمت میں عرض کی:

” آخر آپ (ع) ان لوگوں کے خلاف کیوں اٹھ کھڑے نہیں ہوتے جنھوں نے آپ (ع) کے لاکھوں طرفداراپنی تلواروں سے آپ کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہیں ۔”

امام صادق علیہ السلام نے تنور گرم کرنے کا حکم دیا اور پھر فرمایا:

” اے خراسانی ! مجھے آگ کا عذاب نہ دیجیے اور میرا تصور معاف کردیجیے ۔”

آپ (ع) نے فرمایا:

” میں نے تجھے معاف کیا ۔”

اس دواران ہارون مکی ہاتھ میں اپنے جوتے لئے حاضر ہوئے یہ امام (ع) کے سچے پیروؤں میں سے تھے ۔

امام (ع) انھیں حکم دیا:

” اپنے جوتے پھینک دو اور تنور میں بیٹھ جاؤ ۔”

ہارون نے اپنے زبان سے ایک حرف نکالے بغیر اور کوئی سوال کیے بغیر حکم کی تعمیل کی اور تنور میں داخل ہو گئے ۔

امام علیہ السلام نے اب سہل سے بات شروع کی اور خراسان کے حالات کو اس طرح بیان کیا جیسے وہ برسوں خراسان میں رہے ہوں ۔ پھر سہل سے کہا:

” اٹھ اور تنور میں دیکھ ! “

خراسانی اٹھا اور اس نے ہارون مکی کو دیکھا کہ کسی تکلیف کے بغیر وہ تنور میں بیٹھے ہوئے ۔

ہارون تنور سے باہر آئے، امام علیہ السلام نے خراسانی سے پوچھا:

” تمہیں ہارون مکی جیسے کتنے افراد خراسان میں مل سکتے ہیں (کہ جو بے چوں چرا فرمانبرداری کریں ؟ “)

سہل نے کہا:

” خدا کی قسم ایک آدمی بھی ایسا نہیں مل سکتا ۔”

اس پر امام علیہ السلام نے فرمایا:

” ہمیں زیادہ بہتر معلوم ہے کہ کس وقت قیام کرنا چاہیئے ۔ (اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ دوسرے ہماری رہنمائی کریں ” 7

ہارون مکی نے اس حقیقت کو پالیا تھا کہ امام (ع) ہر طرح کی خطا اور غلطی سے دور ہیں اور انھوں نے جو کچھ حکم دیا ہے اسے بجالانا اس کا فرض ہے حتی کہ کوئی سوال کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ اسی لئے امام (ع) کے حکم کے بارے میں اس نے کسی تردد کا اظہار نہیں کیا اور اسے بے چوں چرا تسلیم کرلیا ؛ بلاشبہ شیعوں کا طرز فکر اپنے پاک اور معصوم ائمہ (ع) کے بارے میں اسی طرح کا ہے اور اسی عقیدے اور اعتماد پر اگر ہمیں ان کے بعض کاموں کی حکمت معلوم نہ ہو مثلاً:

 امام حسن علیہ السلام کی صلح کا سبب، یا امام حسین علیہ السلام کے قیام کی حکمت،

تب بھی ہم اعتراض و تنقید کی زبان نہیں کھولیں گے اور یہ یقین رکھیں گے کہ بہترین اور مناسب ترین وہی کام ہے جو انھوں نے انجام دیا ۔

اب ہم امام حسن علیہ السلام کی صلح اور امام حسین کے قیام کے محرکات معلوم کرنے کے لئے علم و تحقیق کے متعبر سرچشموں کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔

 امام حسن (ع) کی صلح کا فلسفہ

اگر اسلام تواریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ امام حسن علیہ السلام نے فی الواقع صلح کے لئے اقدام نہیں کیا تھا بلکہ صلح ان پر مسلط کی گئی تھی ۔ یعنی اسلامی ممالک کے داخلی اور خارجی حالات اس طرح کے تھے کہ صلح کے مسئلے کو ایک انتہائی لازمی و ضروری اور ناقابل اجتناب مسئلے کے طور پر امام حسن علیہ السلام پر مسلط کیا گیا ۔

اور اگر یہ حالات امام حسن علیہ السلام کے علاوہ کسی اور شخص کو بھی درپیش ہو تو اس کے لئے بھی صلح کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا ۔

اب ہم اس وقت ممالک اسلامی کو درپیش داخلی اور خارجی حالات کا جائزہ لیتے ہیں:

 

1) سیاست خارجہ کے نقطہ نظر سے ہمیں یہ معلوم ہے کہ روم کی سلطنت کو اسلام کے ہاتھوں سخت ضربیں لگی تھیں اسی لئے وہ کسی مناسب موقع کی تلاش میں گھات لگائے بیٹھی تھی تا کہ اسلام کی مقتدر حکومت پر ایک کاری ضرب لگاسکے ۔

اسلامی تاریخوں اور ان میں سے ایک ” تاریخ یعقوبی ” سے معلوم ہوتا ہے کہ جب امام حسن علیہ السلام کی افواج اور معاویہ کی فوجیوں کی ایک دوسرے کے خلاف صف بندی کی اطلاع روم پہنچی تو روم کے حکمرانوں نے سونچا کہ یہ ان کے ہدف کے حصول کا مناسب ترین وقت ہے ۔ اور اسی لئے انھوں نے اسلامی ممالک کے خلاف لشکر کشی کے اقدامات شروع کردیے گے ۔

اس موقع پر اگر امام حسن علیہ السلام ۔ معاویہ کے ساتھ جنگ کو جاری رکھتے تو دشمنان اسلام، اسلام کی بنیادوں پر اچانک ایک ایسی ضرب لگاتے جو ناقابل تلافی نقصان کی حامل ہوتی ۔

کیا ایسے حالات میں امام حسن علیہ السلام جیسا شخص جس نے آغوش اسلام میں پرورش پائی تھی اور اسلام کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا تھا اس کے لئے بجز اس کے اور کوئی چارہ رہ گیا تھا کہ ایک زیادہ بڑے مقصد (بقائے اسلام) کی خاطر روحانی رنج اور تلخی کے ساتھ صلح پر آمادہ ہوجائے ۔؟

ہمارے اس بیان کی حمایت یعقوبی کے اس فقرے سے ہوتی ہے جو اس نے اسلامی ممالک کی خارجی سیاست کی نہایت حساس صورت حال کے بارے میں تحریر کیا ہے ۔

یعقوبی لکھتا ہے:

” معاویہ جب صلح کے بعد شام واپس ہوا تو اس نے شنا کہ روم کی افواج ایک بڑی جمیعت کے ساتھ شام کی جانب آرہی ہیں ۔ معاویہ نے ابتداءً ایک قرار داد کی بنیاد پر صلح کرلی اور پھر جب کافی قوت فراہم کرلی تو رومیوں سے جنگ کی اور انھیں شکست دے دی ۔ چنانچہ رومی اس بات پر تیار ہوگئے کہ دولت اسلامی جو کچھ انھیں دیتی تھی اس سے زیادہ وہ اسے دیں لیکن معاویہ نے اسے قبول نہیں کیا ۔ 8

یعقوبی کے اس بیان سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان صف آرائی کے وقت رومی اسلام پر چو طرفہ حملے کے لئے تیار ہوگئے تھے لیکن امام حسن علیہ السلام کی اس تدبیر نے ان کے ناپاک منصوبے کو خاک میں ملادیا ۔

 

2) داخلی سیاست کے نقطے نظر سے اگر ہم امام حسن علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آپ (ع) اپنے والد امیرالمومنین (ع) کی زندگی میں صف اول میں رہ کر دشمن سے جنگ کرتے تھے چنانچہ جنگ جمل میں پرچم حاصل کرنے کے لئے آپ دوسروں پر سبقت لے گئے ۔ اور آپ ہر اعتبار سے جنگ کے لئے تیار تھے ۔ 9

آپ (ع) نے جنگ صفین میں بھی شرکت کی اور لشکر کے قلب میں موجود رہے اور حضرت علی (ع) کی فوج کی کامل فتح کے لئے مسلسل کوشاں رہے ۔ 10

ان (ع) کے دل میں کبھی خوف اور ڈر نہیں رہا اور ہمیشہ حق و حقیقت کے طرفدار رہے ۔ آپ (ع) کسی سے ہراساں نہیں ہوتے تھے ۔ حتی کہ صلح کے مسلط کیے جانے کے بعد بھی علانیہ معاویہ پر تنقید کرتے تھے اور اس کی کمزوریاں اور غلطیاں لوگوں پر واضح کرتے تھے ۔

جب معاویہ صلح کے بعد کوفہ آیا اور امام حسن علیہ السلام سے منبر پر آنے کی خواہش ظاہر کی (اس سے غالباً اس کا مقصد امام حسن (ع) کو کمزور ظاہر کرنا تھا ۔)

امام حسن علیہ السلام منبر پر تشریف فرماہوئے اور اپنے خاندان کی خدمات کا ذکر کیا اور معاویہ کی حکومت کو باطل اور زوال پزیر قرار دیا اور جو لوگ حکومت بنی امیہ کے آگے جھک گئے تھے اور ان کی ماتحتی قبول کرلی تھی انھیں ڈرایا اور متنبہ کیا ۔ اس واقعہ سے چونکہ بالکل الٹا نتیجہ بر آمد ہوا اس لئے معاویہ یہ سخت پشیمان ہوا ۔ 11

اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام اس قدر عظیم ہمت اور حوصلہ رکھنے کے باوجود کیوں معاویہ کے ساتھ صلح پر آمادہ ہوگئے ؟

امام حسن علیہ السلام نے یہ بات جان لی تھی کہ کوفہ کے لوگ اپنے کردار میں صادق اور سچے نہیں ہیں ۔ اگر چہ کہ انھوں نے امام (ع) کے ہاتھ پر یہ بیعت کی تھی کہ ” اگر انھوں نے جنگ کی تو وہ ان کا جنگ میں ساتھ چھوڑ دیں گے ۔ لیکن باطن میں ان کا دل معاویہ کے مال و جاہ میں اٹکا ہوا تھا اور وہ اسی کی طرح مائل تھے ۔” 12

امام حسن علیہ السلام کو کوفہ کے لوگوں کے ان خطوط کا بھی علم تھا جو انھوں نے خفیہ طور پر معاویہ کو لکھے تھے اور جس میں کہا تھا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تم چاہو تو امام حسن (ع) کو تمہارے حوالے کردیں ۔

وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آپ کی فوج کا سردار ” عبید اللہ ابن عباس ” دس لاکھ درہم لے کر راتوں رات آٹھ ہزار سپاہیوں کے ساتھ بھاگ کر معاویہ کے لشکر سے جاملا ہے ۔

وہ دیکھ رہے تھے کہ کس طرح معاویہ کی جانب سے یہ جھوٹا پروپگنڈا کیا جارہا تھا کہ امام حسن علیہ السلام نے صلح کرلی ہے اس طرح آپ کے فریب خوردہ سپاہیوں کو پراگندہ کیا جارہا تھا ۔

اور انھیں یہ بات بھی معلوم تھی کہ سپاہیوں کی اس قدر کم تعداد کے ساتھ معاویہ سے جنگ نہیں کی جاسکتی اور یہ کہ اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر صلح قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔

حقیقت کو واضح کرنے کے لئے ہم تاریخی حوالہ نقل کرتے ہیں:

یعقوبی لکھتا ہے:

” حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد لوگوں نے امام حسین (ع) کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ امام حسن علیہ السلام نے عبیداللہ بن عباس کی سرکروگی میں بارہ ہزار کی فوج معاویہ کے مقابلے کے لئے روزانہ کی اور عبیداللہ کو حکم دیا کہ وہ اپنے کاموں میں قیس بن سعد کی رائے پر عمل کیا کرے ۔ عبیداللہ لشکر کو لے کر روانہ ہوا ۔ ادھر معاویہ کو حضرت علی (ع) کی شہادت کا علم ہوچکا تھا ۔ اٹھارہ روز کے وقفہ سے وہ موصل پہنچا آخر کار اس کے سپاہی اور امام حسین (ع) کا لشکر ایک دوسرے کے مقابلے آگئے ۔

معاویہ نے دس لاکھ درہم قیس کے لئے روانہ کیے تا کہ وہ اس سے آملے اور امام (ع) سے الگ ہوجائے قیس چونکہ ایک دلیر اور دیندار آدمی تھے انھوں نے اس رقم کے قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ پھر معاویہ نے وہی رقم عبیداللہ ابن عباس کے پاس روانہ کی ۔ عبیداللہ نے اپنے دین و ایمان کو فروخت کردیا اور جنگ سے دستکش ہوگیا اور اپنے آٹھ ہزار سپاہیوں کو لے کر معاویہ سے جاملا ۔ لیکن قیس نے مزاحمت کی اور جنگ سے منہ نہ موڑا آخر کار معاویہ نے امام حسن علیہ السلام کے لشکر میں اپنے جاسوس بھیجے تا کہ وہ وہاں پروپگنڈا کریں اور امام حسن علیہ السلام کی فوج میں یہ کہہ کر انتشار برپا کریں کہ قیس نے معاویہ سے ساز باز کرلی ہے اور امام (ع) اور معاویہ کے درمیان صلح ہوگئی ہے ۔

اس طرح وہ امام حسن علیہ السلام کی فوج کو پراگندہ کرتے رہے ۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ معاویہ نے چند سربرآوردہ شخصیتوں کو جن کی باتوں پر لوگ یقین کرتے تھے امام حسن علیہ السلام سے ملاقات کے لئے روانہ کیا کہ وہ جب امام(ع) سے مالاقات کرکے باہر آئیں تو یہ بات لوگوں میں پھیلا دیں کہ امام (ع) نے معاویہ کے ساتھ صلح کرلی ہے ۔ اس منصوبے کے تحت، مغیرہ بن شعبہ، عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمن ام الحکم، مداین پہنچے اور امام (ع) کے خیمے میں ان سے ملاقات کی اور جب باہر آئے تو بآواز بلند اعلان کیا کہ اللہ تعالی نے امام حسن علیہ السلام کے ذریعہ لوگوں کے خون کو محفوظ کردیا اور اب فتنہ و فساد کا طوفان تھم گیا کیونکہ امام (ع) نے معاویہ کے ساتھ صلح کر لی ہے ۔

امام حسن (ع) کے سپاہیوں نے ان باتوں کی تحقیق کے بغیر غضبناک ہو کر امام حسن (ع) کے خیمے پر حملہ کردیا ۔ اور جو کچھ اس میں تھا اسے برباد کردیا ۔ امام (ع) گھوڑے پر سوار ہو کر ” ساباط ” کی طرف روانہ ہوگئے ۔ جراح بن سنان ” پہلے سے گھات میں بیٹھا تھا، اس نے اچانک حملہ کردیا اور خنجر سے آپ (ع) کی ران کو رخمی کردیا ۔ اس زخم کی وجہ سے آپ بے حد کمزور ہوگئے ۔ اور بیمار پڑگئے اس کے بعد آپ کو مداین لے جایا گیا ۔ اس طرح لوگ آپ (ع) کے اطراف سے پراگندہ ہوگئے ۔

معاویہ عراق آیا اور تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ۔ امام (ع) کی بیماری نے بھی شدت اختیار کی ایک ایسے موقع پر جب کہ امام (ع) جنگ کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور ان کے ساتھی پراگندہ ہوگئے تھے ۔ صلح ان پر مسلط کردی گئی چنانچہ وہ منبر پر آئے ۔ اللہ تعالی کی حمد بیان فرمائی اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد فرمایا:

” لوگو ! اللہ تعالی نے ہمارے سب سے پہلے فرد کے ذریعہ تمہیں ہدایت کی اور ایک دوسرے فرد کے ذریعہ تمہارے خون کو تحفظ عطا کیا ۔ میں نے معاویہ کے ساتھ صلح کرلی ہے کہ حکومت ظاہری اس ہی کی ملکیت ہوگی ۔ 13

طبری نے بھی تصریح کی ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے اس وقت کی صلح کی جب ان کا لشکر پراگندہ ہوگیا تھا اور وہ تنہا رہ گئے تھے ۔ 14

مرحوم شیخ مفید نے ارشاد میں فرمایا ہے:

امام حسن علیہ السلام کا لشکر مختلف قسم کے سپاہیوں سے تشکیل پایا تھا ۔

٭آپ (ع) کے پیرو، خصوصاً آپ (ع) کے والد کے پیرو ۔ ٭

خوارج جو امام حسن علیہ السلام کی مدد کرنا نہیں چاہتے تھے ۔

٭دولت کے پجاری جو مال و دولت حاصل کرنے کی خواہش رکھتے تھے ۔ ٭

متعصب قسم کے لوگ جو صرف اپنے قبیلے کے سردار کی پیروی کرتے تھے ۔

اسی بنا پر اس لشکر کے سپاہیوں نے ثابت قدمی نہیں دکھائی اور بہت جلد امام (ع) کی پیروی سے منہ پھیر لیا ۔ حتی کہ بعض قبائل کے سرداروں نے معاویہ کو لکھا:

” ہم تمہارے فرمانبردار ہیں اور قول دیتے ہیں کہ حسن بن علی (ع) کو تمہارے حوالے کردیں گے ۔ “

معاویہ نے وہ خطوط امام حسن علیہ السلام کے پاس بھیج دیے قیس ابن سعد نے بھی جسے امام (ع) نے عبید اللہ ابن عباس کا نائب مقرر فرمایا تھا امام (ع) کو اطلاع دی کہ معاویہ نے عبیداللہ کو اپنی طرف مائل کرلیا ہے اور اسے دس لاکھ درہم کی پیش کش کی ہے اور کہا ہے کہ آدھی رقم نقددی جائے گی اور آدھی رقم اس وقت جب وہ امام (ع) کو چھوڑ کر کوفہ پہنچ جائے گا ۔

چنانچہ عبیداللہ ایک رات بھاگ کر معاویہ کے لشکر میں پہنچ گیا اور اس سے جاملا ۔ اس طرح ان لوگوں کی نیتوں کا فساد اور ناپاکی بے نقاب ہوگئی جو امام حسن علیہ السلام کے اطراف جمع ہوگئے تھے ۔

امام (ع) نے دیکھا کہ بس مخلص شیعوں کے ایک گروہ کے سوا کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں ہے اور یہ بچے کھچے ساتھی بھی جنگ کی سکت نہیں رکھتے لہذا امام صلح پر مجبورہوگئے باوجود آپ یہ جانتے تھے کہ معاویہ کے نزدیک صلح ایک حیلہ ہے ۔ 15

جو کچھ ہم نے تحریر کیا ہے اس سے بخوبی واضح ہوگیا کہ اس زمانے میں دولت اسلامیہ کے داخل حالات کچھ اس طرح کے تھے کہ امام (ع) کے لئے معاویہ کے ساتھ صلح کرنا ناگریز ہوگیا تھا اور اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے یہ کام ضروری ہوگیا تھا ۔ اس کے سوا کوئی راہ باقی نہیں رہ گئی تھی کہ معاویہ سے صلح کی جائے ۔

اسی بنا پر ہم یہ کہتے کہ امام حسن علیہ السلام کی صلح ناگزیر اور ان پر مسلط کردہ تھی یہ اختیاری صلح نہیں تھی ۔

خود امام حسن علیہ السلام نے اپنے پیروؤں کے سامنے صلح کے محرکات کی اس طرح توضیح فرمائی:

” خدا کی قسم ! اگر لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرتے اور میری مدد کرتے تو آسمان سے بارش برستی اور زمین ان کے لئے برکتیں اگلتی اور معاویہ خلافت کے معاملے میں طمع کی راہ اختیار نہ کرتا ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اور اپنی قوم کو چھوڑ کر غار میں پناہ لی اور اگر لوگ آپ ۖ کی مدد کرتے تو آپ ۖ کو غار میں پناہ لینے کی ضرورت نہ پڑتی اور آپ مکہ سے ہجرت نہ فرماتے ۔ مجھے اور میرے باپ کو بھی امت نے تنہا چھوڑ دیا اور دوسروں کے پیچھے چلنے لگے ۔ پھر صلح کے سوا ہماری کوئی ذمہ داری نہ رہی ۔ ” 16

” خدا کی قسم ! اگر معاویہ کے ساتھ جنگ کرتا تو لوگ مجھے پکڑ کر اس کے حوالے کردیتے ۔” 17

” تم نہیں جانتے کہ میں نے کیا کام کیا ہے، خدا کی قسم مین نے وہ کام کیا ہے جو شیعہ کے لئے ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے ۔ میں نے مسلمانوں کے مفاد میں اور ان کے خون کے تحفظ کے لئے یہ کام انجام دیا ہے ۔ ” 18

3) معاویہ کا کردار واضح ہو معاویہ، خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب کے زمانے سے شام کا گورنر تھا حضرت عمر چونکہ اس کا بہت احترام کرتے تھے اس بنا پر اس نے شام میں بڑا مقام پیدا کر لیا تھا ۔ اس حد تک کہ شام کے لوگوں کی نگاہوں میں اس کا مرتبہ مقداد، عمار، ابوذر اور ایسے دوسرے اصحاب سے بھی بڑھ گیا تھا ۔ جبلہ و تدبیر کی بنا پر اس کا حقیقی کردار لوگوں کی نگاہوں سے مخفی تھا اور اس کی حقیقی شخصیت کو لوگ نہیں پہچانتے تھے ۔

جو شخص بھی اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا وہ لوگوں کی نگاہوں میں اسے ملزم ٹھہرادیا کرتا اور خود بری ہو جاتا ۔ وہ اپنے تمام کاموں کو اسلام کا لباس پہنا دیتا اور آخر اتنا جری ہوگیا کہ حضرت علی (ع) کے مقابل اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے اس اقدام کو خون عثمان کا بدلہ لینے کا رنگ دے دیا ۔

ظاہر ہے ان حالات میں اگر امام حسین علیہ السلام، معاویہ سے جنگ کرتے تو قتل کر دیے جاتے اور آپ (ع) کا خون ضائع ہوتا ۔ اور پھر معاویہ اسے اپنی ایک سیاسی اور جنگی تدبیر قرار دیتا اور اس طرح اس کے اصل عزائم اور اس کا حقیقی کردار لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتا ۔

لیکن صلح کے سبب مسلمانوں کا خون محفوظ ہوگیا اسلام پر بھی کوئی آنچ نہ آئی اور معاویہ کے عزائم بے نقاب ہوگئے ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ امام حسن (ع) نے صلح نامہ کے مضمون کو اس طرح ترتیب دیاکہ یہ چیز مستقبل میں بھی معاویہ کے اصل عزائم ظاہر کرنے میں مؤثر ثابت ہوسکے

 صلح نامہ کے مضمون کا ایک حصہ

” معاویہ اس بات کا پابند ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرے گا ۔ وہ اپنا کوئی جانشین مقرر نہیں کرے گا ۔ امیرالمومنین علی (ع) کے پیروؤں اور ساتھیوں کو امان دے گا اور حضرت علی (ع) کو برابر بھلا نہیں کہے گا ۔۔۔۔ ” 19

لیکن معاویہ نے ان باتوں میں سے کسی بات پر عمل نہیں کیا اور صلح کے طے پانے جانے کے بعد وہ نخلیہ (کوفے کے قریب ایک مقام) آیا اور اپنے خطاب میں کہا:

” خدا کی قسم ! میں نے تمہارے ساتھ اس لئے جنگ نہیں کی کہ تم نماز ادا کرو، روزے رکھو، اور حج کرو اور زکوة دو، کیونکہ یہ کام تو تم پہلے ہی سے انجام دیتے ہو ۔ میں نےتو تم لوگوں سے اس لئے جنگ کی ہے کہ تم پر حکومت کروں اور اب میں نے ہدف حاصل کرلیا ہے ۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ صلح نامے میں جن شرائط کو مین قبول کیا ہے ان سب کو میں اپنے پیر کے نیچے رکھتا ہوں اور میں انھیں ہرگز پورا نہیں کروں گا۔ ” 20

اس طرح معاویہ کے اصل عزائم بے نقاب ہوگئے اور اب کو معلوم ہوگیا کہ حکومت کے سوا اس کا کوئی اور مقصد نہیں تھا ۔ اسے اسلام اور مسلمانوں کی فکر یہیں تھی ۔ جب اس نے اپنی مرضی کے مطابق سلطنت حاصل کرلی تو اس صلح نامے کی تمام شرائط کو بھلا دیا جو اس نے امام حسن علیہ السلام کے ساتھ طے کیا تھا ۔

امام حسین (ع) کے جہاد کا فلسفہ

امام حسن علیہ السلام اور حکومت معاویہ کے زمانے کے حالات اور امام حسین علیہ السلام اور حکومت یزید کے زمانے کے حالات میں بہت بڑا فرق ہے کیونکہ یزید اسلامی قوانین کا پابند نہیں تھا ۔ حتی کہ ظاہر داری کے لئے بھی ان قوانین کی پابندی نہیں کرتا تھا اور تمام دینی شعائر کا علانیہ مذاق اڑاتا تھا اور اس حکومت کا جاری رہنا یقینی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے لئے نقصان دہ تھا ۔

امام حسین علیہ السلام نے اپنے بڑے بھائی امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ کی حکومت کے ختم ہونے تک اس صلح کی پابندی کی جو امام حسن (ع) نے معاویہ سے کی تھی ۔

اور معاویہ کی وفات کے بعد، یزید کے ہاتھ پر بیعت سے انکار کرتے ہوئے ساٹھ ہجری کے اواخر میں آپ اپنے خاندان کے ساتھ مکہ چلے گئے اور وہاں حج کے باقاعدہ مراسم کی تکمیل سے پہلے ہی عراق اور کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے اور 2 محرم سنہ ھ 61 کو میدان کربلا میں خیمہ زن ہوئے ۔

یہاں ابن زیاد کے ایک بڑے لشکر سے آپ کا مقابلہ ہوا ۔ 10 محرم کو ایک سخت جنگ کے بعد اپنے بھائیوں، بیٹوں اور ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش فرمایا اور اپنے خون سے کربلا کے عظیم کارنامے کو رقم فرمایا ۔

تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے ہی سے ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ امام علیہ السلام کو اپنے سفر کا انجام معلوم تھا اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ مکہ اور عراق کی جانب ان کا سفر بالآخر ان کے قتل اور شہادت پر ختم ہوگا اس سلسلے میں ہمارے چند دلائل یہ ہیں:

1) ابن زیاد نے امام (ع) کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ آپ (ع) مکہ ہی میں رہیں میں لوگوں کو آپ (ع) کی مدد و رفاقت کے لئے جمع کروں گا ۔

امام (ع) نے فرمایا:

خدا کی قسم ! میں شہید ہونے سے زیادہ مکہ سے باہر شہید ہونا پسند کرتاہوں ۔

(دور جاہلیت میں بھی اور زمانے اسلام میں بھی حریم خانہ خدا میں جنگ اور خونریزی ممنوع تھی اور امام (ع) کی بھی یہی کوشش تھی کہ اگر وہ قتل ہون تو مکہ میں قتل نہ ہوں اور خانہ خدا کی حرمت مجروح نہ ہو)

خدا کی قسم اگر وحشی اور خوفناک درندوں کی پناہ گاہ میں بھی پناہ لوں تو یہ ظالم مجھے باہر نکال لائیں گے اور اپنا مقصد (کہ جو میرا قتل ہے) حاصل کرکے رہیں گے ۔ 21

2) چوتھے امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:

” مکہ سے عراق تک کے راستے میں کوئی منزل یا مقام ایسا نہیں تھا جہاں قیام کرتے اور کوچ کرتے وقت میرے بابا نے یحیی ابن زکریا علیہ السلام اور ان کے قتل ہونے کو یاد نہ کیا ہو ۔ ایک روز انھوں نے فرمایا:

” خدا کے نزدیک دنیا کی پستی اور ناچیزی کے لئے یہی کافی ہے کہ لوگوں نے بنی اسرائیل کے زنا کاروں کی زناکاری کے لئے حضرت یحیی علیہ السلام کا سر بطور تحفہ بھیجا ۔” 22

3) عمر بن سعد نے حادثہ کربلا سے پہلے کوفہ میں امام حسین (ع) سے کہا تھا:

” بعض احمق یہ خیال کرتے ہیں کہ میں آپ کا قاتل ہوں گا اور آپ میرے ہاتھوں قتل ہوں گے ۔ “

امام (ع) نے فرمایا:

” وہ احمق نہیں ہیں، عقل مند لوگ ہیں، لیکن مجھے خوشی ہے کہ میرے بعد تو عراق کے گندم میں سے کم ہی کھا سکے گا ۔

(یعنی تجھے جلد موت آجائے گی ۔) 23

4) امام (ع) نے عراق کی طرف روانہ ہوتے وقت بنی ہاشم کو لکھا:

” تم میں جو شخص بھی مجھ سے آملے گا شہادت کا درجہ پائے گا اور جو شخص پیچھے رہ جائے گا اسے کامیابی حاصل نہ ہوگی ۔ 24

5) نیز معروف خطبہ ” خط الموت علی ولد آدم ۔۔۔۔” کو پڑھا اور موت کے لئے اپنے شوق کا اظہار کیا آپ (ع) نے فرمایا:

گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ ” نوادیس ” اور ” کربلا ” کے درمیان، جنگل کے بیھڑیے میرے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کررہے ہیں ” 25

بلاشبہ وہ اپنی شہادت سے آگاہ تھے، اس سفر کے انجام سے واقف تھے اور بارہا اپنے دوستوں اور اہل خاندان سے صراحتاً یا اشارتاً فرماتے تھے اس قیام اور تحریک کا انجام شہادت ہے ۔

6) اس سے پہلے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیرالمومنین (ع) اور امام حسن (ع) بھی اس حادثے کی خبر دے چکے تھے حتی کہ امام حسین علیہ السلام کے دنیا میں آنے سے پہلے فرشتوں نے ان کی شہادت کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دے دی تھی ہم تیسری شعبان کی دعا میں پڑھتے ہیں:

اے خدائے بزرگ ! اس کی قسم جو اس دن دنیا میں آیا اور جس کی ولادت سے قبل اور جس کے رونے کی آواز بلند ہونے سے پہلے اس کی شہادت کا وعدہ دے دیا گیا تھا ۔ ” 26

7) حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا ذکر اس حد تک ہوچکا تھا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی (ع) کے ساتھی آپ کے قاتل کو اس کے نام تک سے پہچانتے تھے یہی وجہ ہے کہ جب بھی عمر بن سعد مسجد میں وراد ہوتا تھا حضرت علی (ع) کے اصحاب کہتے تھے:

” یہ حسین ابن علی (ع) کا قاتل ہے ۔” 27

8) میثم تمار، حضرت علی (ع) کے وفادار ترین ساتھیوں میں سے تھے ۔ وہ مختار ثقفی کے ساتھ ابن زیاد کے زندان میں محبوس تھے ۔ امام حسین علیہ السلام کی کربلا میں آمد سے دس دن پہلے شہید ہوئے ۔ میثم نے قید خانے میں مختار کو اطلاع دی کہ:

” تو آزاد ہوجائے گا اور امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینےکے لئے اٹھ کھڑا ہوگا اور ابن زیادہ کو قتل کرے گا ۔ ” 28

9) فضیل بن زبیر کہتے ہیں:

میثم اور حبیب ابن مظاہر کی راستے میں ملاقات ہوئی ۔ دونوں نے باہم سرگوشی کی اور دونوں اس قدر قریب ہو گئے کہ ان کے گھوڑوں کی گردنیں ایک دوسرے کے متوازی آگئیں ۔ حبیب نے کہا:

” میں نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جس کے سر کے اگلے حصے پر بال نہیں تھے اور جس کا پیٹ بڑھا ہوا تھا اسے خاندان پیغمبر ۖ کے ساتھ دوستی کے جرم میں سولی پر چڑھایا گیا اور سولی پرہی اس کا پیٹ پھاڑ دیا گیا ۔”

میثم نے کہا:

” میں بھی ایک سرخ چہرہ آدمی کو جانتا ہوں جس کے دو گیسو چہرے کے دونوں جانب پڑے رہتے ہیں اور وہ کوفہ سے پیغمبر ۖ کے نواسے کی مدد کے لئے نکلتا ہے اسے قتل کردیا جاتا ہے ۔ اور اس کے سر کی کوفہ کے بازاروں میں نمائش کی جاتی ہے ۔”

اس کے بعد حبیب اور میثم ایک دوسرے سے جدا ہوگئے اور وہ لوگ جنھوں نے ان دونوں کی گفتگو سنی تھی کہنے لگے:

” کسی شخص کو ہم نے ان دونوں سے زیادہ جھوٹ بولنے والا نہیں دیکھا ۔”

ٹھیک اسی وقت وہاں رشید ہجری پہنچ گیا اور اس نے حبیب اور میثم کے بارے میں پوچھا ۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ وہ دونوں ابھی یہاں تھے اور وہ کہیں چلے گئے اور ہم نے ان دونوں کو یہ اور یہ کہتے سنا ہے ۔

رشید نے کہا:

” اللہ تعالی میثم پر رحم فرمائے جو کچھ اس نے کہا تھا وہ درست ہے لیکن وہ یہ کہنا بھول گیا کہ حبیب کا سر کاٹ کرلانے والا دوسروں سے سو درہم زیادہ انعام حاصل کرے گا ۔ “

فضیل بن زبیر کہتا ہے:

جن لوگوں نے حبیب اور میثم کی باتوں کو جھوٹ قرار دیا تھا بعد میں انھوں نے خود کہا:

” خدا کی قسم چند روزے سے زیادہ نہیں گزرے کہ میثم کو عمرو بن حریث کے گھر کے سامنے سولی پر لٹکا دیا گیا اور حبیب کے سرکو بھی جو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ شہید ہوئے

تھے، کوفہ لایا گیا اور جو کچھ انھوں نے کہا تھا ٹھیک وہی واقع ہوا ۔ ” 29

10) انس کہتا ہے:

” ہم یہ بات پہلے سے سنتے آئے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کو کربلا میں شہید کیا جائے گا ۔ ” 30

ابن عباس کہتے ہیں:

” ہمیں اس کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا اور اہل بیت (ع) بھی اس بات پر متفق تھے کہ حسین (ع) طف (کربلا) میں شہید ہوں گے ۔” 31

یہ چند مثالیں ہیں جو تاریخ اور حدیث سے نقل کی گئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف امام حسین علیہ السلام اپنی شہادت سے آگاہ تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس بات کا علم تھا ۔

امام کے علم کے بارے میں یہ بات روایات سے ثابت ہے کہ امام تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے اور ہر حادثہ کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ کہاں واقع ہوگا ۔

اگر ہم اس حقیقت کو نظر انداز بھی کردیں تب بھی امام حسین (ع) کی شہادت کا مسئلہ کوئی ایسا مسئلہ نہ تھا جس سے وہ بے خبر تھے ۔ کیونکہ اس واقعہ کی صحابہ میں پہلے سے شہرت تھی اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی (ع) نے اس کی بار بار اطلاع دی تھی اس لئے امام حسین علیہ السلام کے اس واقعہ سے بے خبر ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ۔

ہمارا یہ یقین ہے کہ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کو اپنی شہادت کی خبر نہیں تھی یا انھیں اپنے مکہ اور عراق کے سفر کے انجام کی اطلاع نہیں تھی، یہ لوگ حقیقت بین نگاہوں سے محروم ہیں اور انھوں نے مقام امامت کو پہچانے بغیر یہ فیصلہ کیا ہے ۔ حتی کہ تاریخ اور روایات کو بھی انھوں نے نظر انداز کردیا ہے ۔

پھر بھی آپ (ع) نے کیوں قیام فرمایا ؟

اگر وہ اپنی شہادت سے واقف ہوتے تو آخر کیوں قیام کرتے؟ اگر جانبازی اور شہادت خدا کے حکم سے، ایمان و دین کو زندہ کرنے مسلمانوں کو بیدار کرنے اور منافقین کو بے نقاب کرنے کے لئے پیش کی جائے تو یہ خود سب سے بڑی سعادت اور شرافت ہے ۔

سید بن طاووس لکھتا ہے:

” شاید وہ لوگ جو شہادت کے اعزاز سے واقف نہیں ہیں یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کسی شخص کو بھی جانبازی اور شہادت پیش کرنے کا حکم نہیں دیتا ۔ “

اور شاید وہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس آیت قرآنی:

” ولا تلقوا بایدیکم الی التهلکة “

” خود کو ہلاکت میں مت ڈالو ” 32

کا مطلب یہ ہے کہ شہادت کے لئے آمادہ نہیں ہونا چاہیئے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ شہادت کو قبول کرنا سعادت کا بلند ترین مرتبہ ہے اور اس سے گریز کرنا ہلاکت کا موجب ہے ۔

ابو ایوب انصاری، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی روایت کرتے ہیں:

” جب ہم نے یہ چاہا کہ اپنے بیوی بچوں اور مال کی خاطر پیغمبر اکرم ۖ کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں تو یہ آیت (ولا تلقوا بایدیکم) خود ہمارے بارے میں نازل ہوئی ۔ “

اب آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ اگر پیغمبر ۖ کی مدد کرنے میں کوئی کوتاہی کروگے تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دو گے اور اللہ تعالی تم پر غضبناک ہوگا اور تم نیست و نابود ہوجاؤگے ۔ ” 33

بلاشبہ جو لوگ موت سے ڈرتے ہیں اور اپنی آرام طبی کی عادت کی وجہ سے جہاد اور فدا کاری سے گریز کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اور احیائے دین کی راہ میں جان و تن قربان کرنے سے پرہیز کرتے ہیں تو وہ یقیناً خود کو نیستی و نابودی کی جانب لے جارہے ہیں اور انھوں نے اپنے معاشرہ کو بھی ضلالت اور گمراہی کی طرف ڈھکیل دیا ہے ۔

کیا پیغمبروں نے اپنے کثیر مخالفین کے مقابل تن تنہا ثابت قدمی نہیں دکھائی اور لوگوں کو نجات و فلاح کی راہ کی طرف بلانے کا کام انجام دے کر ہر طرح کی تکلیفوں اور مصیبتوں کو برداشت نہیں کیا ؟

اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے بھی حکومت یزید کے مقابل قیام کیا اور اپنا حیات آفرین کارنامہ سرانجام دے کر اپنے خون سے اسلام کے پودے کو سینچا اور اپنی جان کا نذرانہ اللہ تعالی کے حضور پیش کردیا ۔ اور خود تشنگی کو برداشت کرکے انسانیت کو سیراب کیا ۔ اور اپنے قیام سے بنی امیہ کو رسوا کیا اور دنیا والوں پر یہ واضح کردیا کہ اسلام اور خلاقیت اسلامیہ اور ان ظالموں کی حکومتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔

اس شہادت کی وجہ سے خاندان پیغمبرۖ کی حقیقت اور اصلیت لوگوں پر اچھی طرح واضح ہوئی اور تشیع کو زیادہ استحکام حاصل ہوا اور اہل بیت (ع) کو معارف لوگوں کے سامنے پیش کرنے اور انھیں سکھانے کا موقع ملا اور اس حد تک ملا کہ لوگوں کے دل ائمہ اطہار (ع) کی جانب متوجہ ہوگئے ۔ اور وہ ان کی دانش کے سرچشمے سے فیض حاصل کرنے اور اسلام کے حقیقی علوم سیکھنے کے قابل ہوگئے اور پھر ایسی کتب کی تدوین ہوئی جن کی بدولت آج بھی ائمہ (ع) کے علوم کے ثمرات ہماری دسترس میں ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس لحاظ سے شیعہ بڑے قیمتی ذخیرے کے مالک ہیں جس میں کوئی مکتب فکر ان کی ہمسری نہیں کرسکتا ۔

امام (ع) نے اپنے پر ثمر قیام کے ذریعہ اسلام کے پژمردہ جسم میں جو معاویہ کی سیاست کی وجہ سے مردہ ہوچکا تھا ایک نئی روح پھونک دی ۔ اپنے اور اپنے جوانوں اور دوستوں کے خون سے اور اہل بیت (ع) کی خواتین کی اسیری سے اسلام کو حیات و بقا بخشی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیان” حسین منی انا من حسین ” 34 کو حقیقت کا جامہ پہنا دیا اور اس حقیقت کو سب پر واضح و آشکار کردیا ۔

اتمام حجت

مزید یہ کہ اگر امام علیہ السلام کے قیام کو عام قسم کا واقعہ قرار دے کر اس کا جائزہ لیں تب بھی جو کارنامہ آپ نے انجام دیا ہے اس سے بہتر کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا ۔

امام (ع) نے اپنے مقدس قیام سے دین کے احیاء اور اس کی سربلندی کا جو کام انجام دیا وہ لوگوں پر اتمام حجت کا سبب بن گیا ۔

اب لوگ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ اگر ہمیں کوئی رہنما میسر آتا تو ہم اس کے اطراف جمع ہوتے اور بنی امیہ کو مسند خلافت سے اتار دیتے اور اگر امام (ع) قیام کرتے تو ہم ان کی مدد کرتے اور ظالموں کی حکومت کو جڑسے اکھاڑ پھنکتے، اور اگر ۔۔۔،۔۔ !!

ہم یہ بات جانتے ہیں کہ کوفہ کے لوگ امیرالمومنین (ع) اور امام حسن (ع) کا ساتھ دینے کے سلسلے میں کوئی اچھا رکارڈ نہیں رکھتے تھے ۔

حضرت علی (ع) ان سے فرماتے تھے:

” اے لوگ ! تمہاری شخصیتیں اور تمہارے حالات اور تمہاری خواہشات سب جدا جدا ہیں ۔ خدا کی قسم تمہاری باتوں کو میں سچ نہیں مانتا اور تمہاری رفاقت سے میں کوئی امید نہیں رکھتا ۔” 35

کوفیوں کے اسی سابقہ طرز عمل کی بنا پر ابن عباس، ابن عمر ، عبداللہ بن جعفر، محمد حنفیہ، جابر انصاری، عمر بن عبدالرحمن، اور عبداللہ بن مطیع سب امام حسین علیہ السلام کے سفر کوفہ سے غمناک و افسردہ تھے اور ان میں سے کچھ نے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ جانے سے منع بھی کیا تھا ۔

البتہ امام (ع) خود بھی اس خطرے سے بے خبر نہ تھے لیکن اگر وہ کوفیوں کے سفیروں، خطوط اور بہت سے ان پیغامات سے بے اعتنائی برتتے جن میں انھیں جلد کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی تو یقیناً وہ ساری کوتاہیاں امام (ع) ہی کے کھاتے میں ڈالتے اور ان کی تحقیر کے لئے لوگوں کی زبانیں کھل جاتیں ۔

وہ کہتے:

” امام (ع) نے ہماری خواہش پر توجہ نہ دی، وہ ہماری فریاد کو نہیں پہنچے اور اس کے نتیجے میں یزید ہم پر مسلط رہا ۔”

اسی لئے امام (ع) اتمام حجت کے طور پر ان کی دعوت قبول کرلی اور اپنی ذات کے لئے خطرہ مول لیا اور عراق کے لئے روانہ ہوگئے تا کہ لوگوں کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے اور سب لوگ جان لیں کہ اگر وہ خود ہمت سے کام لیں، شک و شبہے، تفرقے اور آرام طلبی کو الگ کرکے رکھ دیں اور حکومت اسلامی تشکیل دینے کے لئے تیار ہوجائیں تو امام (ع) ان کی دعوت کا مثبت جواب دینے کے لئے موجود ہے اور وہ معاشرہ کی سعادت کی راہ میں کسی مشکل سے نہیں گبھراتا ۔

جیسا کہ تمام ائمہ اطہار (ع) نے اسی جانب اشارہ فرمایا ہے کہ ہمارے ساتھی کافی تعداد میں ہوں اور تیار ہوں تو ہم اپنے حق کا دفاع کرنے سے باز نہیں رہیں گے اور مسلمانوں کے حقوق دلانے اور معاشرہ کی محرومیوں کو ختم کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہونے میں دریغ نہیں کریں گے ۔

ابن عباس اور دوسروں نے کوفیوں کے سابقہ ریکارڈ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی امام (ع)کو عراق جانے سے روکا تھا ۔ حتی کہ انھوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ امام حسین علیہ السلام یمن چلے جائیں یا کسی اور جائے امن کا رخ کریں لیکن وہ لوگ اس بڑی مصلحت کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ امام (ع) کا یمن چلے جانا ،اور کوفیوں کی دعوت کو قبول نہ کرنا، اہل بیت (ع) کے دشمنوں کے لئے بہانہ بن جاتا اور انھیں یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ:

” کوفیوں نے نیاز مندی کا ہاتھ امام (ع) کی جانب بڑھایا اور ان کی مدد کے لئے بھی وہ تیار تھے لیکن امام (ع) نے ان کی خواہشات پر کوئی توجہ نہ دی انھیں خود اپنی جان کا خوف لاحق ہوگیا اور وہ تو خود اپنی آسائش کی فکر میں تھے ۔ “

امام علیہ السلام نے ابن عباس اور دوسروں کی پیشکش کو قبول نہ فرمایا اور باوجودیکہ وہ اپنے سفر کے انجام اور اپنی شہادت سے آگاہ تھے عراق کی جانب روانہ ہوگئے تا کہ لوگون کی ان پر کوئی حجت نہ رہے اور دشمنوں کو خاندان رسالت کے خلاف پروپگنڈے کے لئے کوئی بہانہ ہاتھ نہ آئے اور وہ اس کی بنا پر لوگوں کو اسلام سے منحرف کرنے کی کوشش نہ کرسکیں ۔

اس طرح امام علیہ السلام اٹھ کھڑے ہوئے اور دشت کربلا کے ایک گوشے کو اپنے اور اپنے دوستوں کے خون سے لالہ زار کردیا اور شہادت کے وہ گل ہائے لالہ کھلادیے جن کی تازگی باغ انسانیت کو ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھے گی ۔

امام نے اپنی مقدس اور خونین فریاد سے دنیا میں یہ اعلان کیا کہ:

حسین (ع) نے اپنا فرض ادا کردیا اور یہ لوگ بے ایمان اور بے وفا تھےاس لئے انھوں نے اس کی مدد سے ہاتھ کھنچ لیا اور اسے تنہا چھوڑ دیا اور اسے دشمنوں کے حوالے کردیا ۔

مختصر یہ کہ امام حسین علیہ السلام کا قیام ان کی کامل آگاہی کے ساتھ عمل میں آیا تھا اور وہ اس کے خونین انجام سے آگاہ تھے ۔

٭ان کا یہ قیام خدا کے حکم، اس کی رضا اور اس کی خواہش کی بنا پر تھا اور اسی راستے سے امام اور ان کے ساتھیوں کو بہترین سعادتیں حاصل ہوئیں ۔ ٭

امام حسین علیہ السلام نے ایسے حالات میں قیام فرمایا جب کہ شجر اسلام کو اس طرح کی آبیاری کی سخت ضرورت تھی اور اگر امام حسین علیہ السلام اس موقع پر قیام نہ فرماتے اور حکومت یزید اور اس کے کاموں پر صاد فرماتے رہتے تو اسلام کا درخت نہ صرف سوکھ جاتا بلکہ دشمن اسے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتے ۔

٭اس قیام کے سبب لوگوں پر اتمام حجت ہو اور سب نے جان لیا کہ انھوں نے امام علیہ السلام کا ساتھ دینے میں کوتاہی برتی جس کی بنا پر وہ یزید کی ظالم وجابر حکومت کے جال میں پھنس گئے ۔

1. ایها الناس قد ولیت امرکم و لست بخیرکم …. فان احسنت فاعینونی وان زغت فقومونی (طبقات ابن سعد مطبوعہ لندن ج 3 ص 129)

ایهاالناس قد ولیت امرکم و لست بخیرکم فان احسنت فاعینونی و ان اسات فقومونی طبری مطبوعہ لندن ج 4 ص 1829 ۔ سیرت ابن ہشام مطبوعہ مصر 1375 ج 3 ،4 صفحہ 660)

2.کل احدٍ اعلم من عمر (تفسیر کشاف ج1 ص 491 ۔ مطبوعہ اسماعیلیان) کل الناس افقہ من عمر درالمنثور ج2 ص 133 ۔ تفسیر امام فخر رازی ج10 ص 13 ۔

3. غایة المرام بحرانی: ص 208 ۔ نقل از کتاب فرائد السمطین ۔

4. لا تسابقوهم فتهلکوا ولا تقصروا عنهم فتهلکوا ولا تعلموهم فهم اعلم منکم ۔ (غایة المرام بحرانی ص 214)

5. اصول کافی ج 1 ص 279 اور اس کے بعد دیکھیں ۔

6. الحسن والحسین امامان قاما او قعدا ء (علل الشرائع صدوق مطبوعہ قم ص 200 ۔ بحار الانوار ج 44 ص 2)

7. مناقب ابن شہر آشوب مطبوعہ نجف ج 3 ص 362، بحارالانوار ج 47 ص 123 ۔

8. تاریخ یعقوبی ج2 ص 206 ۔ مطبوعہ نجف ۔

9. امامة و السیاسة ج 1 ص 77 ۔

10. الامامة والسیاة ج 1 ص 108 ۔

11. طبری ج 7 ص 6۔

12. بحار الانوار ج44 ۔ ص 54 ۔ ارشاد مفید ص 169 ۔

13. یعقوبی ج 2 ۔ ص 204 مطبوعہ نجف ۔

14. تاریخ طبری ج 7 ص 2 ۔

15. کتاب ارشاد ص 171 ۔ 174۔

16. بحار جلد 44 ص 23 ۔

17. بحار جلد 44 ص 21 ۔

18. بحار، ج 44 ص 19 و ص 56 ۔

19. بحار ج 44 ص 64 ۔

20. بحار ج 44 ص 49 ۔

21. کامل ابن اثیر ج 4 ص 38 مطبوعہ بیروت سنہ ھ 1385 ۔

22. اعلام الوری ص 220 مطبوعہ نجف ۔ ارشاد مفید مطبوعہ آخوندی صفحہ 236 ۔

23. ارشاد مفید ص 235 ۔

24. کامل الزیارات ص 75 ۔

25. لھوف ص 53، مطبوعہ تہران 1317 ھ

26. مصباح شیخ طوسی ص 57 مطبوعہ تہران ۔

27. ارشاد مفید ص 235 ۔

28. شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید مطبوعہ 4 جلدی ۔ ج 1 ص 210 ۔

29. رجال کشی مطبوعہ دانشگاہ ص 78، 79 ۔

30. الخصائص الکبری ج 2 ص 450 مطبوعہ 1387 ھ

31. الخصائص الکبری ج 2 ص 451 ۔

32. سورہ بقرہ آیت 195 ۔

33. لھوف ص 23 ۔ 25 ۔

34. سنن ترمذی مطبوعہ مصر 1387 ھ ج 5 ص 324 ۔

35. نہج البلاغہ فیض خطبہ 29 ۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *