تازہ ترین

امام حسین (ع) اور عزت

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزت، اخلاق اسلامی کے ثابت اور ناقابل تغییر اصولوں میں سے ایک اصل ہے۔نہایت افسوس

شئیر
1339 بازدید
مطالب کا کوڈ: 140

کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے الفاظ اپنے اصلی معانی اور معارف کھو بیٹھے ہیں جیسے صبر، عشق . توکل وغیرہ، ان میں سے ایک کلمہ عزت بھی ہے.انسان عزت کا بڑا خواہان ہوتا ہے ، اسے جان سے بھی زیادہ پیاری  ہوتی ہے . عرت خواهی انسان کی فطری امور میں سے ہے.لیکن بات یه ہے که عزت ہے کیا؟اور عزتمند هونےکا طریقه کیا ہے ؟ اس مختصر سے مقالہ میں امام حسین(ع) کے نزدیک عزت کے معانی، معیاراور عوامل پر بحث ہو گی۔ امام کی زندگی اور اس کے عظیم شان قیام  میں انسان کی سعادت  کا هر اصوا ل مضمر ہے .لیکن هم اس عظیم الهی خزانه سے غافل هیں اور ایک سطحی نگاه سے دیکهتے هیں .انهی پوشیده اصولوں میں سے ایک عزت ہے ۔ کیونکہ امام حسین (ع) عزت کا امام اور علمبردار ہے ۔امام  کاشعار ہی ھیھات منا الذلہ تھا۔
عزت کے معنی
لفظ “عزت”  نفوذ ناپذیری وغلبہ، قوت و شدت کے معنی میں آیا ہے اور عزت مند انسان وہ ہے کہ جو کسی ایسے بلند درجے پر فائز ہو کہ ذلت و خواری وہاں تک نہ پہنچ سکے۔
راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ عزت انسان کے اندر ایک ایسی حالت ہے جو انسان کو خواری سے محفوظ رکھتی ہے۔  البته غلبه  عزت کا لازمه  ہے کیونکه انسان جب عزتمند هو جاتا ہے  تو دوسرون پر غالب آجاتا ہے
صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی لکھتے ہیں کہ کلمۂ عزت، نایابی کےمعنی میں ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز عزیز ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس تک آسانی سے رسائی ممکن نہیں ہے۔ 
اسلامی افکار میں عزت دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے
حقیقی عزت : عزتِ حقیقی خداوند کے لیے ہے اور وہ انسان جو عزت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں وہ خداوند کے ساتھ رابطے کے طفیل ہی سے ہوتے ہیں اسی وجہ سے علمائے اسلام نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں عزت حقیقی کو خدا وند متعال، رسول (ص)، اور مؤمنین کے لیے مختص، قرار دیا ہے۔ ی وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ۔ عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے هی ہے ۔یعنی انسان کا نفس اور روح  ،خداشناسی کی وجه سے اتنا مضبوط  هو که هر کس ونا کس کےارا  اور افکار سے متاثر نه هو تاهو .عزت بعنی ذلت کو قبول نه کرنا یعنی غیر الله کی سامے  نرم اور رام نه هونا . عزت یعنی خالق کائنات کےمقابلےمیں کسی کی رای اور نظر کو قبول اور تسلیم نه کرنا .
فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا۔ 
بے شک ساری عزت تو خدا کی ہے
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ  ـ)
جب کہ عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے
جھوٹی عزت: جاہلیت کی ثقافت میں زیادہ قدرت و طاقت، کثرت اولاد خصوصا بیٹوں، مال و دولت کی فراوانی، افراد ی قوت کی کثرت وغیرہ کو عزت کا نام دیا جاتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات مردگان کو بھی عزت کا معیار سمجھتے ہوئے قبور کو بھی شمار کرتے ہیں اور آج بھی طاغوت پرست قوموں کے نزدیک عزت کا معیار کچھ ایسا ہی ہے۔
امام عالی مقام نے ا پنے قیام میں عزت اور ذلت کے معیارات کو بیان کیا ہے یزید جیسے فاسق و فاجر کی بیعت کو ذلت شمار کیا ہے اور اس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے مر جانے کو عزت کا نام دیا ہے اور کئی مقامات پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ حسین(ع) کبھی بھی یزید کی بیعت کر کے ذلت کو قبول نہیں کرے گا؛ اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “اے میرے بھائی خدا کی قسم! اگر دنیا میں میرے لیے کوئی بھی پناہ گاہ موجود نہ ہو پھر بھی یزید کی بیعت نہیں کروں گا کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے ” خدایا یزید کو اپنی نظر رحمت سے دور رکھ” ۔
امام حسین (ع) نے اصحاب و انصار کی کم تعداد کے باوجود اپنے مقصد و ہدف کو جاری رکھا اور ایک پل کے لیے بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہ ہوئے جب عمر بن سعد نے امام حسین(ع) کو یزید کی بیعت کی دعوت دی تو فرمایا” خدا کی قسم ذلت کے ساتھ کبھی بیعت نہیں کروں گا اور غلاموں کی طرح اس کی خلافت کا اقرار نہیں کروں گا” ۔
اسی طرح اپنی بہن حضرت زینب کو (ع) صبر وبردباری کا درس دیتے ہوئے فرمایا اے بہن صبر کرو، گریہ نہ کرو اور دشمن کو طنز و طعن کا موقع نہ دو” ۔
امام حسین (ع) کے فرامین میں تدبر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عزت کچھ عوامل پر موقوف ہے جن کو کسب کیے بغیر عزت کے مقام کو حاصل نہیں کیا جا سکتا یہاں پر ان میں سے کچھ عوامل کو ذکر کیا جا رہا ہے۔
عوامل عزت
ارتباط با خدا
امام حسین (ع) کہ جو آغوش وحی کے پروردہ ہیں عزت نفس کو ارتباط با خد ا سے وابستہ سمجھتے ہیں خدا وند سے ارتباط کے بغیر حاصل ہونے والی عزت کو ذلت تصور کرتے ہیں اپنے پروردگار سے خلوت میں راز و نیاز کرتے ہوئے فرماتے ہیں” الہی ! تیری بارگاہ میں میری ذلت و خواری واضح ہے اور میری حالت تم سے مخفی نہیں خدا وندا ! میں اپنے آپ کو کیسے عزت مند سمجھوں کہ تیرے سامنے خاضع اور ذلیل ہوں اور کیسے احساس عزت نہ کروں جبکہ تو نے مجھے اپنے ساتھ منسوب کیا ہے “.
کربلا میں کوفیوں کے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ” اگر تم میرے عذر کو قبول نہیں کرتے اور میرے ساتھ انصاف نہیں کرتے تو پھر اپنے ساتھیوں کو جمع کر لو اور مجھ پر حملہ آور ہو جاؤ اور مہلت نہ دو بے شک خدا وند جو کہ قرآن کو نازل کرنے والا ہے میرا ولی اور مدد گار ہے وہی خدا جو کہ نیک لوگوں کا ولی ہے” ۔
خود شناسی: عزت کے عوامل میں سے مہم ترین عامل اپنے آپ کو پہچاننا ہے معصومین (ع) کے فرامین سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خود شناس انسان اپنے آپ کو گناہ سے آلودہ نہیں کرتا اور عزت کا احساس کرتا ہے امام حسین سے جب والی مدینہ نے یزید کے لیے بیعت طلب کی تو آپ کے جواب سے احساس ہویت چھلکتا ہوا نظر آتا ہے اور معصوم (ع) اس کو اپنے لیے عزت شمار کر تے ہوئے فرماتے ہیں ” اے امیر ! ہم اہل بیت (ع) نبوت اور رسالت کا خزانہ ہیں اور یزید فاسق، شراب خور، اورپاکیزہ انسانوں کا قاتل ہے لہذا مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرے گا” ۔
امام حسین (ع) اپنی شخصیت کو اس سے کہیں بالا تر پیش کر رہے ہیں کہ یزید جیسے کی بیعت کو قبول کریں اور امام حسین (ع) کے ساتھی بھی اسی فکر کے حامل تھے لہذا جب شمر ملعون نے جناب عباس (ع) کو پکار کر کہا کہ میں تمہارے لیے امان نامہ لے کر آیا ہوں تو آپ (ع) نے اس کو جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھا جب تک کہ امام (ع) نے حکم نہ دیا ۔
اسی طرح حضرت زہیر نے بھی شمر کو وحشی جانور قرار دیتے ہوئے اس سے کلام کرنا بھی گوارا نہ کیا۔
نسب
خاندانی شخصیت اور ابا ء و اجداد کا کسی عزیز قبیلے سے تعلق رکھنا بھی عزت کے حصول کے لیے ایک اہم عامل شمار ہوتا ہے امام (ع) نے بھی مختلف مقامات پر اپنا تعارف رسول خدا ﷺ، اپنے والد بزرگوار امام علی(ع) اور والدہ گرامی حضرت صدیقہ طاہرہ(ع) کے عنوان سے کرایا ہے اور خاندان نبوت سے منسلک ہونے کو اپنے لیے عزت و شرف شمار کیا ہے کیونکہ اس خاندان کی طہارت قرآن دے رہاہے۔إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا   اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
اسی طرح امام (ع) نے دشمنوں کی تذلیل کی خاطر ان کے پست انساب کی طرف اشارہ کیا ہے مثلا ابن زیاد کو زنا زادہ، معاویہ اور یزید کو آزاد شدہ غلاموں کی اولاد، مروان کو زرقا ء کے بیٹے کے عنوان سے یاد کیا ہے اما م (ع) مروان کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں” اے زرقاء ماں کے بیٹے جو بازار ذی المجاز میں مردوں کو اپنی طرف بلاتی تھی اور بازار عکاظ میں اس نے فساد و فحاشی کا جھنڈا لگایا ہوا تھا اے مردود کے بیٹے جسے رسول خدا ﷺ نے ملعون قرار دیتے ہوئے اپنی بارگاہ اقدس سے راند دیا تھا خود کو اور اپنے والدین کو پہچانو۔
تربیت
وہ جگہ کہ جہاں انسان رشد کرتا ہے خصوصا خاندان، ماں، باپ اور ماحول انسان کی شخصیت کی تعمیر اور تباہی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں امام حسین(ع) اپنی خاندانی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم ﷺ کے زیر تربیت رہنے اور حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی گود میں پلنے، بڑھنے کو بھی اپنی عزت کے عامل کے طور پر پیش کرتے ہیں امام حسین (ع) یزید کے بارے میں فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں:قال: ألا إن الدعي ابن الدعي قد ركز بين اثنتين بين السلة والذلة، وهيهات ما آخذ الدنية، أبى الله ذلك ورسوله، وجدود طابت، وحجور طهرت، وانوف حمية، ونفوس أبية، لا تؤثر مصارع اللئام على مصارع الكرام. ” آگاہ رہو کہ اس زنا زادہ کے بیٹے زنا زادے نے مجھے ایک ایسے دو راہے پہ لا کھڑا کیا ہے کہ جن میں سے ایک قتل اور دوسرا ذلت کا راستہ ہے ہم سے کوسوں دور ہے کہ ذلت و رسوائی کو قبول کریں خدا وند متعال، پیغمبر اکرم ﷺ اور مؤمنین اس بات پر ناخوش ہیں کہ ہم ذلت کو قبول کریں۔
ماؤں کی پاک آغوش اور اباء و اجداد کے باغیرت اور شریف صلب ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ قتل ہونےء کی بجائے گھٹیا لوگوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں” ۔
قناعت
عزت کے عوامل میں سے ایک او ر عامل قناعت اور دنیاوی نعمتوں سے دل کو نہ لگانا ہے اور مادیات سے بے نیازی کا احساس ہے امام (ع) فرماتے ہیں ” عزت کا راز لوگوں سے بے نیازی کے احساس میں ہے” ۔
امام (ع) کی نظر میں دنیا کو خطر ے میں ڈالے اور جا ن ومال کو قربان کیے بغیر عزت حاصل نہیں کی جا سکتی وہ لوگ جو اپنے دل کو دنیا کے بدلے گروی رکھ چکے ہیں اور اپنی شخصیت کو شکم پر کرنے کے بدلے فدا کر چکے ہیں اور اپنی عزت کو مال و ثروت کے حصول کا ذریعہ بنا چکا ہیں کبھی بھی عزت نہیں پا سکتے امام (ع) کوفیوں کے، حق کے سامنے صف آراء ہونے اور ذلت کو قبول کرنے کو حرام خوری کا نتیجہ گردانتے ہیں ۔
بلند ہمتی
انسان کی عزت بلند ہمت کے مرہون منت ہے پست اہداف سے انسان پست ہو جاتا ہے اور اس کے سکوت کا باعث بنتا ہے وہ لوگ جو اپنی شہوت اور خواہشات نفسانی کو اپنا ہدف قرار دیتے ہیں آسمان کی بلندیوں کی خوبصورتی کو درک کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں اور انسانی اقدار کو کھو بیٹھتے ہیں امام حسین(ع) رسول اسلام ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ: إن الله يحب معالي الأمور و يكره سفسافه” خدا وند بلند مرتبہ امور کو پسند کرتا ہے اور پست کاموں کو پسند نہیں کرتا”۔
جب حر ابن یزید ریاحی نے امام حسین(ع) کو یزید کی بیعت کی دعوت دی اور قبول نہ کرنے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی تو امام (ع) نے فرمایا ” موت سے ڈرنا میرے شایان شان نہیں ہے حق کو زندہ کرنے اور عزت کو پانے کی راہ میں موت کس قدر آسان ہے عزت کے حصول میں موت ابدی زندگی کا دوسرا نام ہے اور ذلت کے ساتھ زندہ رہنا موت ہے مجھے موت سے ڈرا رہے ہو تمہارا تیر خطا گیا ہے اور تمہارا گمان بے بنیاد ہے، میں موت سے نہیں ڈرتا، میرا نفس عظیم اور ہمت اس سے کہیں بلند ہے کہ موت سے ڈر جاؤں اور ذلت کو قبول کر لوں آیا قتل کرنے کے علاوہ بھی کسی کام پر قادر ہو؟
تمت بالخیر فداعلی حلیمی

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *